پاکستانی سیاست میں فوج کا کردار

0

تحریر: محمد عظیم خان کاکڑ

میں سمجھتا ہوں سیاست ایک عقیدے کا نام ہے جہاں آپ اپنے نظریات اور مقاصد کے لئے مٹ تو جاتے ہیں مگر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اب جہاں تک ملکی سیاست میں فوج کا کردار ہے تو بلاشبہ یہ کہونگا کہ سیاستدانوں نے ہی فوج کو سیاست میں اتارا ہے۔ عمران خان دور حکومت میں جب جنرل باجوا کی مدت ملازمت میں توسیع کا بل قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، محسن داوڑ اور علی وزیر کے علاوہ سب نے ووٹ دیا۔ گویا 342 اراکین اسمبلی میں سے 18 کے سوا سب نے ووٹ دیا۔ لہذا ریٹائرمنٹ 60 سال سے بڑھ 64 سال کر دی گئ۔ نیپولین بوناپارٹ فرانسیسی فوجی حکمران گزرا ہے جو کہا کرتے تھے کہ “جہاں بھی پارلیمنٹ کمزور ہوگا وہاں فوج کا راج رہے گا”۔ فرانسیسی صحافی جیکس مارٹن کہتے ہیں: “طاقت اور اختیار دو الگ چیزیں ہیں، طاقت کے سامنے اختیار عاجز ہے اور ہاں اختیار کے بغیر طاقت تباہی ہے”۔ کسی مفکر کا قول ہے: “جہاں جہالت اور طاقت یکجا ہوں وہاں انصاف قائم نہیں ہوسکتا”۔ ایک اور سکالر کے مطابق “کسی بھی منتشر قوم کا پہلا علاج کرنسی کی افراط زر ہے اور دوئم جنگ۔ تاہم دونوں عارضی خوشحالی پیدا کرتے ہیں اور مستقل تباہی کا سبب بنتے ہیں، البتہ فائدہ سیاسی و کاروباری افراد اٹھاتے ہیں”۔

بات کریں ملک کے موجودہ معاشی صورتحال کی تو جہاں تمام سیکٹرز کو معمول سے کم بجٹ دیا گیا وہاں فوج کے بجٹ میں مجموعی طور پر گیارہ فیصد اضافہ ہوا اور گذشتہ سال فوج کے لئے 7.5 ارب ڈالرز یعنی 1523 ارب مختص کئے گئے۔ خیر اگر انڈیا کے ساتھ موازنہ کریں تو وہاں بھی 9 فیصد اضافے کے ساتھ 70 ارب ڈالرز مختص کئے گئے۔ یوں امریکی دفاعی بجٹ 722 ارب ڈالرز، چین 237 ارب ڈالرز، سعودی عرب 10 فیصد کمی کے ساتھ 45 ارب ڈالرز، روس دفاعی بجٹ 2020 میں 48 ارب ڈالرز تھا جو اب 26 ارب ڈالرز ہوا، یوکرین نے حالیہ جنگ کے سبب اپنا دفاعی بجٹ 72 فیصد بڑھایا اور 8.2 ارب ڈالرز رکھا۔ اس اعداد و شمار کا مقصد محض یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر پچھلے 15 سالوں میں درجنوں آپریشن کا آغاز کیا۔ ان آپریشنز میں ردالفساد، راہ نجات، ضرب عضب، المیزان، شیردل، راہ شہادت، آپریشن زلزلہ و دیگر شامل ہیں۔ یوں آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں اسی ہزار خاندانوں کے 9 لاکھ سے زاہد افراد بے گھر ہوئے، آپریشن راہ نجات کے نتیجے میں ستر ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے، آپریشن باجوڑ یا شیر دل میں سات ہزار افراد لاپتہ ہوئے۔ طامس سنکارا جوکہ مغربی افریقہ کے ملک برکینا فاسو کے صدر (1983 سے 1987) رہے اور پھر قتل ہوئے کہا کرتے تھے کہ “حب الوطنی سے مشروط سیاسی بصیرت و تعلیم کے بغیر سپاہی محض ایک خطرناک مجرم ہے”۔

امریکی نامور سیاسی مبصر اور مفکر نام چوم سکئ کہتے ہیں کہ “بیشتر لوگوں کو پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے! یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ بالکل بے خبر ہیں! اور یہ بھی نہیں جانتے کہ اس خاص معاملے کے حوالے سے کیا فیصلہ لیا جارہا ہے”۔ اگر میں جرات کے ساتھ کہوں تو یہی صورتحال ہمارے سیاسی قیادت کی ہے۔ برازیل کے معروف ماہر تعلیم اور فلسفی پاولو فرئیر اپنی کتاب (پالیٹکس آف ایجوکیشن) میں لکھتے ہیں: “ظالم اور مظلوم کی لڑائی میں خود کو نیوٹرل کہنے والا درحقیقت ظالم کا ساتھی ہے”۔ ہاں طامس ھابس کہا کرتے تھے: “فیصلے ذہانت نہیں بلکہ اختیارات کرتے ہیں”۔ لہذا جہاں اختیارات غلط لوگوں کے پاس ہوں، جہاں قیادت میں احساس ذمہ داری کے بجائے مجرمانہ غفلت ہو، جہاں قابلیت اور حب الوطنی کے بجائے خوشامدیوں پر مہربانیاں ہوں، وہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنہوں نے پاکستان کوایٹمی پروگرام دیا، مصنف عبدالحمید جنہوں نے دو سو سے زاہد ناول اور کتابیں لکھی، کھلاڑی عبدالخالق جنہوں نے بین الاقوامی 42 مقابلوں میں گولڈ میڈل حاصل کیا، سابق گورنر سندھ حکیم سعید جو ہمدرد یونیورسٹی بنا چکے، ظفر اللہ خان جوکہ پہلے پاکستانی وزیر خارجہ اور 1962 سے 1964 تک اقوام متحدہ کے واحد پاکستانی صدر رہے، ہاشم خان جو سات بار برطانوی سکواش چیمپین رہے، مصنف مظہر کلیم جو پانچ سو سے زاہد کتابیں لکھ چکے ہیں اور بین الاقوامی طور پر شہرت پا چکے، ایم ایم عالم جو 1965 کی جنگ میں ایک منٹ میں 5 ہندوستانی جنگی طیارے گرا چکے۔ جہانگیر خان، باکسر حسین شاہ، چالیس سال تک شکست نہ کھانے والے گاما پہلوان، تن ساز عاطف انور سے لوگ متاثر ہونا چھوڑ چکے ہیں، عثمان کاکڑ جیسے سیاسی اکائی کو لوگ مثال نہیں سمجھتے۔ ایسے معاشرے قاتلوں، ظالموں، سرمایہ داروں کی پیروی میں نکل پڑتے ہیں۔ نتیجتا” عوام کا اپنی رھبری پر اعتبار ختم ہو جاتا ہے اور عسکری ادارے اہم ملکی فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.